Skip to main content




                                                        
                                                                                              

     یوم آزادی   






کرنل حسن مارکیٹ بالکل سامنے ہی تھا۔اس وقت اسکا نظر آنا مشکل تھا ۔  چائے کی دکان کے ساتھ فٹ پاتھ پہ کرنل مرزا حسن خان بیٹھے ہوئے تھے۔سامنے سے لوگ گزر رہے تھے مگر انہیں کوئی پہچان نہیں رہا تھا، شا ید سب اسے بھول گئے تھے۔ہاتھ میں کچھ فوجی تمغے اور ان کے ساتھ وہ کھیل رہے تھے۔اچانک اسکے سامنے سے ایک بچہ جو کہ سائیکل پر اخبار بھیج رہا تھا کا گزر ہوا۔
میلا کچیلا ، نٹ کھٹ سا لڑکا مستی میں جومتا گاتا تیز تیز قدموں میں آگے بڑھ رہا تھا کہ کرنل مرزا حسن خان کو دیکھ کر رک گیا۔
’’بابا! یہاں بیٹھ کر کھیلنے سے اچھا ہے کہ اخبار پڑھو آج گلگت بلتستان کی یوم آزادی کا دن ہے‘‘۔لڑکے نے کرنل مرزا حسن خان کو مشورہ دیا۔ ’’ ہیں۔۔۔۔ کیا کہہ رہے ہو آپ؟‘‘ کرنل مرزا حسن خان چونک کر اس سے پوچھا ۔
’ ’ارے انکل کس دنیا میں گم ہو۔۔۔۔ میں کہہ رہا ہوں اخبار لے لیں اور گلگت بلتستان کے ہیروز کی تصوریں دیکھ لے اور گھر جائے۔۔
گھر!۔۔۔ مگر میرا گھر تو یہی ہے۔ کرنل مرزا حسن خان بولے۔
’’اچھا تو یوں بولو نا کہ میری طرح آپکا بھی کوئی گھر نہیں ۔ پھر تو اچھی چلے گی آپ سے مگر یہاں نہیں‘‘
’’ کیوں یہاں کس بات کا ڈر ؟ کرنل مرزا حسن خان نے پوچھا
’’ارے انکل کہاں سے آئے ہو۔۔۔ یہ گلگت ہے، یہاں کب کیسے حالات ہو جائے کچھ پتہ نہیں ہوتا۔۔ اس لئے کہہ رہا ہوں سمجھے۔۔‘‘
’’ ایک بات بتاؤ تم مجھے جانتے؟۔‘‘ کرنل مرزا حسن خان نے تعجب سے پوچھا۔
’’ نہیں کہیں دیکھا تو ہے آپ کو مگر یاد نہیں پڑھ رہا کہاں دیکھا!‘‘ لڑکا کچھ سوچھتے ہوئے بولا۔
’’ اچھا آخبار دے دو ذرا کچھ دیکھانی ہے تمھیں‘‘ کرنل مرزا حسن خان نے لڑکے سے کہا۔ لڑکے نے اخبار دے کر بو لا ’’ یہ رہا اخبار اب بولیے۔‘‘
اس پر تصویر دیکھئے کرنل مرزا حسن خان نے کہا۔۔۔
باپ رے پاپ یہ توآپکی ہے! آپ۔--۔۔ آپ -----۔۔ کرنل حسن ہے؟’’ لڑکا حیرت سے بولا۔
’’شکر ہے آپ میرا نام تو جانتے میرا پورا نام کرنل مرزا حسن خان ہے‘‘ کرنل مرزا حسن خان بولے۔
لیکن آپ نے اپنا نام نہیں بتایا، نہ تو یہ بتایا کہ آپ کس کلاس میں ہے‘‘
میرا نا م ناصر ہے، آپ کلاس کا پوچھ رہے ہیں میں نے تو آج تک اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔
’’کیا!۔۔مگر یہ تو آپ کی پڑھنے کی عمر ہے کرنل مرزا حسن خان غصے سے بولے۔
’’پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر میں پڑھنے جاؤں تو گھر کون چلائے گا۔ ویسے اسکول میں پڑھنے کے لیے فیس اور کتابوں کی ضرورت ہوتی ہیں میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ امی کی دوائیاں لاسکھوں اور آپ اسکول جانے کی بات کرتے۔
مگر! آپ کے ابو کیا کرتے کرنل مرزا حسن خان نے بچے سے پوچھا۔
ان کو تو پنڈی جاتے ہوئے چلاس میں دہشت گردوں نے قتل کیا۔
دہشت گردوں کو پکڑا ہوگا ؟ حکومت نے کچھ پیسے بھی تو دلوایا ہوگا؟کرنل مرزا حسن خان نے پوچھا۔
لڑکا مایوسی کی حالت میں بولا نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا ناصر ہنسنے کی کوشش کررہا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو نمایاں ہونا شروع ہوگئے۔ ابا کے انتقال کے بعدگھر کو سمبھالنے والا کوئی نہیں تھا، گھریلویں حالات کی وجہ سے امی بیمار رہنے لگی اور مجھے سائیکل پر اخبار بیجھنا پڑا ناصر بولتے بولتے رک گیا۔ اس نے دیکھا کہ کرنل مرزا حسن خان کے آنکھوں میں آنسو تھے۔۔ ارے حسن انکل آپ کیوں رو رہے ہو؟؟میں بھی کتنا گندا بچہ ہوں کی آپ کو رولا دیا۔۔ مجھے معاف کرو۔۔
’’ نہیں ناصر بیٹا آپ معافی کیوں مانگ رہے ہو۔۔
سوچا تھا کہ جب گلگت آؤں گا تو ہر طرف خوشیا ں ہی خوشیاں ہونگے سب بچے اسکول جارہے ہونگے، ہر شخص کام کررہا ہوگا۔
مگر۔۔ یہاں آیا تو ہر طرف کرفیو کا سناٹا، اور جہالت کا راج دیکھا۔میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ گلگت کا یہ حال ہوگا یہ کہہ کر کرنل مرزا حسن خان روتے ہوئے بولے۔یہ سب کیا ہوگیا کیسے ہوگیا ۔جب ہم آزادی کے لئے لڑ رہے تھے تب ہم سب ایک تھے اور اب فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کوئی شعہ کوئی سنی اور کوئی اسماعیلی اور ایک دوسرے کو کافر ٹھہرانے میں مگن ہیں۔ 
کرنل مرزا حسن خان انتہائی غمزدہ لہجے میں بول رہے تھے کہ انہیں کھانسی آنا شروع ہوگئی تو ناصر ناراض ہونے لگے۔۔
حسن انکل اتنا غضہ کرینگے تو طبیعت خراب ہو جائیگی۔
ویسے آپ فکر نہ کرے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اتنے میں فائرنگ ہوگئی۔ ناصر پیجھے مڑ کر دیکھتا ہے تو کوئی نہیں ہوتا۔۔

Popular posts from this blog

Philips

Royal Philips is a diversified technology company, focused on improving people’s lives through meaningful innovation. Our health care business makes up 42% of our global sales revenue. With a century of history and more than 450 innovative products and services, we are ready to meet today’s challenges in healthcare by creating solutions that deliver better care to more people at lower cost. Our more than 37,000 employees, working in 100 countries, are committed to helping you create meaningful moments of care, whether in the hospital room, the living room or the boardroom. See how we are working to create a healthier future together. ...

SSUET Admission schedule